بلوچ عوام کو ان کا جائز حصہ دینا
جناح کے نظریات
جو کچھ میں نے بیان کیا ہے، اس سے آپ یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ میں فقط بلوچستان کے لوگوں کو انتظامیہ میں ان کا حصہ دینے کے آغاز کی کوشش کر رہا ہوں اور میں انہیں مواقع فراہم کر رہا ہوں کہ وہ اپنی مستقبل کی انتظامیہ کی تشکیل میں اور بالعموم اپنے عوام کی فلاح و بہبود کی خاطر بھرپور کردار ادا کر سکیں۔ مثال کے طور پر، صوبے کی مستقبل کی سیاسی، معاشی، سماجی اور تعلیمی ترقی کے تمام منصوبے مشاورتی کونسل کے ذریعے تیار اور پیش کیے جائیں گے اور ان منصوبوں پر مشاورتی کونسل کی رائے اور تجاویزکی روشنی میں عمل درآمد کی ذمہ داری گورنر جنرل پر عائد ہو گی۔ اور یوں حضرات، کسی حد تک آپ پاکستان کے دوسرے صوبوں کی نسبت فائدے میں ہوں گے۔ یہاں آپ درحقیقت ایک گورنر جنرل کے صوبے میں ہوں گے اور آپ میری خصوصی توجہ اور ذمہ داری کے اہل ہوں گے اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ، کونسل کی سرگرمیوں کے دائرہ کار میں، گورنر جنرل مشاورتی کونسل کی مشاورت سے وقتاً فوقتاً جو بھی ضروری اقدامات درکار ہوں، انجام دیتے رہیں گے۔
-مسٹر جناح / قائداعظم
- تقریر: بلوچستان میں ترقی کا نیا دور
گہرے تاثّرات
سیاسی اصلاحات کے بغیر بلوچستان سماجی اور معاشی ترقی حاصل نہیں کر سکتا، چونکہ گذشتہ دور کی غیر ملکی انتظامیہ عوام کی امنگوں سے بے نیاز تھی اس نے صوبے کو مختلف حصوں اور مختلف حیثیتوں میں تقسیم کر رکھا تھا جو سبھی پسماندگی کے طوق میں جکڑے ہوئے تھے۔
مسٹر جناح کی جدوجہدِ آزادی نے بلوچستان کے لوگوں کے دل جیت لیے جنہوں نے اپنی آزادانہ منشا سے ریاست پاکستان میں شامل ہونے کے لیے ووٹ دیا۔ حکومت پاکستان اور بلوچستان کے عوام کے درمیان قانونی، انتظامی اور سیاسی انتظامات جمہوری ریفرنڈم کے ذریعے طے پائے۔ تمام اختیارات بلوچستان کے عوام کے غیر متزلزل جذبے سے ماخوذ ہیں۔
پاکستان کے ہر صوبے کو خود مختاری کا یکساں درجہ حاصل ہونا چاہیے اور خاص طور پر بلوچستان کو اپنے انتظامی معاملات میں مناسب حقِ رائے دہی حاصل ہونا چاہیے۔ بلوچستان کی سیاسی خود مختاری کے عمل کے آغاز اور اس میں تیزی لانے کے لیے، مسٹر جناح نے ایک مشاورتی کونسل قائم کی تھی جو سربراہِ مملکت کے ساتھ براہ راست اور قریبی تعاون کرتی تھی۔ یہ کونسل بلوچستان کے مستند نمائندوں پر مشتمل تھی اور کونسل کو موجودہ پالیسیوں پر نظرثانی و جانچ پڑتال، صوبائی بجٹ میں ردوبدل اور بلوچستان کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے اپنی
سفارشات پیش کرنے کے حقیقی اختیارات حاصل تھے۔
اِس تاریخی ماڈل کی تقلید میں، بلوچستان کی مُشاورتی کونسل کی جانب سے منصوبوں، ڈیزائنز، پیشکشوں اور پالیسی کا نِفاذ پاکستان کے حُکّامِ بالا کی خصوصی ذِمّے داری بنتی ہے۔ یہ انتظام درکار ہے کیونکہ بلوچستان ایک محرُوم صُوبہ ہے اور بدقسمتی سےیہ رقبے کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صُوبے کی حیثیت رکھنے کے باوجود انتخابات جیتنے میں بڑے پیمانے پر بے نتیجہ اور کم اہم ہی رہا ہے۔ اِس صُوبے کو ریاست کی خُصوصی ذِمّے داری ہونا چاہئیے کہ وہ بلوچستان کی ترقّی اور خُوشحالی کے لیے مِیزان میں توازُن لائے اور وافر مقدار میں جگہیں اور مواقع فراہم کریں۔
ہماری تاریخ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ بلوچستان کو ایک خاص حیثیت حاصل ہونی چاہیے، اور جب ہم اپنے موجودہ حالات پر غور کرتے ہیں تو قومی ضمیر شدید جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتا ہے اور یہ سوال کرتا ہے کہ کیا ہم نے بلوچستان کی ترقی کے لیے اجتماعی جدوجہد کی ہے اور اپنے تاریخی نظریات کے حصول کے لیے بھرپور محنت کی ہے؟ کیا ہم نے مسٹر جناح کی جدوجہد کے ساتھ انصاف کیا ہے؟ کیا بلوچستان میں مسلح گروه، ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیاں ہماری قومی تحریک آزادی کی میراث ہیں؟
ان سوالوں کے جواب میں، پاکستان کے شہری تمام صوبوں کے لیے یکساں خودمختاری کے حصول، صوبائیت کو شکست دینے اور بلوچستان کی تیز رفتار اقتصادی، سماجی، سیاسی اور تعلیمی ترقی کے لیے پاکستان کے اندر تمام لوگوں کو متحد کرنے کے اپنے قومی مشن سے پوری طرح آگاہ اور باشعور ہیں۔
ہم بلوچستان کی ترقی کے لیے درکار جدوجہد کا جذبہ، ولولہ اور نظم و ضبط پیدا کریں گے۔
اب یہ پڑھیں
یکساں مضامین جو شاید آپ کو پسند آئیں
اِسلامی جمہوریت کا اصول یہ ہے کہ ریاست کے شہری کسی بھی مذہب یا ذات یا نسل سے تعلق رکھ سکتے ہیں- اِس سے ریاست کا کائی لینا دینا نہیں ہے۔