معاشی جدّوجہد
جناح کے نظریات
تکنیکی تعلیم کا دائرہ کار بہت وسعت کا حامِل ہے، کیونکہ ہمیں تکنیکی اہلیت رکھنے والوں کی شدت سے ضرورت ہے۔ آپ بینکاری، تجارت، قانون اور دیگرایسے شعبوں میں مہارت حاصل کر سکتے ہیں، جو کہ اب بہت وسیع ترمواقع فراہم کررہے ہیں۔ آپ یہ پہلے سے ہی جانتے ہیں کہ نئی صنعتوں کا آغاز ہو چکا ہے ، نئے بینک، نئی انشورنس کمپنیاں، نئے تجارتی اِدارے عمل میں آرہے ہیں، اور جیسے جیسے آپ آگے بڑھیں گے اِن کی بھی ترقی ہوگی۔ اب، یہ راستے اور میدان آپ کے لیے کھلے ہیں۔ ان کے بارے میں سوچیں اور اپنی توجہ ان کی طرف مبذول کریں، اور یقین کریں، اس طرح آپ کو صرف سرکاری ملازمت اختیار کرنے اور وہاں پر مرکوز رہنے سے زیادہ فائدہ ہوگا، میں تو یہ کہوں گا، کلرکی کا دائرہ، صبح سے شام تک وہاں کام کرنے، زیادہ تر گندے اور غیر آرام دہ حالات میں۔ اگر آپ تجارت اور صنعت کے شعبے کو اپناتے ہیں تو آپ ترقی کے بہت زیادہ مواقع کے ساتھ کہیں زیادہ خوشحال اور کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہوں گے اور اس طرح نہ صرف آپ اپنی بلکہ آپ اپنی ریاست کی بھی مدد کر رہے ہوں گے۔
- مسٹر جناح / قائداعظم -
- تقریر: نیشن بلڈنگ میں طلباء کا کردار - ڈھاکہ یونیورسٹی کے کانووکیشن میں تقریر
گہرے تاثُّرات
سرکاری نوکری و خدمات مخصوص پاکستانی حلقوں میں پُروقار ضرور ثابت ہو سکتی ہے، لیکن یہ معاشی جدوجہد میں درپیش مسائل کا مثبت حل فراہم نہیں کرسکتی۔ ماسوائے دولت اور وسائل کے حصول کے۔
وسائلی آلات کی مدد سے انسانی عقل کے استعمال سے سنگین مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ وسائلی آلات مسائل کو حل کرنے کی انسانی صلاحیت کو اتنا کارآمد تو ضرور کردیتے ہیں کہ کم از کم ان کو شدت کی ترتیب سےحل کیا جا سکے ۔
ہم وسائلی آلات کو تکنیکی جدتوں کی دوڑکے تناظر میں اخذ کرسکتے ہیں۔ پاکستان بڑی حد تک زرعی اور نیم صنعتی معیشت ہے اور اس نے اب تک جدت کے بعد از صنعتی موجوں کے مکمل اثرات کا تجربہ نہیں کیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ ناقابل یقین حد تک مواقع موجود ہیں جن سے استفادہ حاصل کیا سکتا ہے۔
انٹرنیٹ
یہ ایک معلوماتی شاہراہ کی مانند ہے، ورلڈ وائیڈ ویب (ڈبلیو ڈبلیو ڈبلیو) جو کہ کسی بھی ذاتی کمپیوٹر سے کسی بھی معلومات تک رسائی فراہم کرتا ہے، ایک اعلیٰ مساواتی طور پر کام کرتا ہے، ای کامرس (کمپیوٹر کے زریعہ تجارت) کی شروعات کرتا ہے اور روایتی و دقیانوسی کاروباری انداز کی تردید کرتا ہے۔
انٹرنیٹ نے مالیاتی ادائیگیوں کے عمل، ویب ڈویلپمنٹ، سوشل میڈیا، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، ڈیٹا، تجزیات اور دیگر مختلف شعبوں میں زبردست پیش رفت کی۔ اسی باعث بہت سی کمپنیوں نے سرمایہ اکٹھا کرنے اور اپنی ساخت
پیدا کرنے کے لیے خود کو ایک "انٹرنیٹ کمپنی" کے طور پر نُمایاں رکھا۔
- تاہم، پاکستان میں اس انٹرنیٹ کی لہر تفریحی مقاصد، مواد کا تجزیہ اورصریح استعمال کی صورت میں نظر آئی۔ لیکن 90 کی دہائی کے آخر اور 2000 کی دہائی کے اوائل میں انٹرنیٹ ربط سازی کے محدود انفراسٹرکچر اور انٹرنیٹ پر مالی ادائیگی کے عمل میں رکاوٹوں کی وجہ سے ای کامرس نے پوری طرح جڑیں نہیں پکڑیں۔
عام آدمی انٹرنیٹ سے بڑی حد تک غافل رہا کیونکہ ڈیسک ٹاپ اور کمپیوٹرز کو ابھی تک عام لوگوں کی رسائی حاصل نہیں تھی، جس کی وجہ قیمتوں کا تعین، استطاعت ،اور تکنیکی معلومات تھی۔
موبائل
سن 2008ء میں جب سٹیو جابز نے آئی فون متعارف کرایا تو نئی لہر کا آغاز ہوگیا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھاکہ آپ گوگل یا فیس بک جیسی انٹرنیٹ کمپنی ہیں، اہم یہ تھا کہ آپ اُوبر اور اسنیپ چیٹ جیسی موبائل کمپنی ہیں۔ سٹیو جابز نے کھیل کو تبدیل کر دیا کیونکہ آئی فونز میں اپولو گیارہ گائیڈنس کمپیوٹرز کے مقابلے میں نمایاں طور پر مضبوط کمپیوٹنگ پاور تھی ۔ اپولو گیارہ گائیڈنس کمپیوٹرزجو انسانیت کے پہلے چاند پر اترنے کے ذمہ دار رہے ، جو اس بات کی عکاسی کرتے تھے کہ"ایک آدمی کے لیے ایک چھوٹا سا قدم، بنی نوع انسان کے لیے ایک بڑی چھلانگ"کی مانند تھا۔ مور کا قانون اس کو بہتر طور پر سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔
سن 1965ء میں گورڈن مور نے مشاہدہ کیا کہ سِلیکون چِپ کی سطح پرٹرانسِسٹروں کی چھپنے کی تعداد ہر سال دوگنی ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ آج مور کا قانون اب خاص طور پر ٹرانزسٹر کثافت کا حوالہ نہیں دیتا، بلکہ یہ پیش گوئی کرتا ہے کہ کمپیوٹنگ کی طاقت ہر اٹھارہ ماہ بعد دوگنی ہوجاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مور کے قانون کی اصل حدود طبیعیات کے ٹھوس صورت کی بجائے انسانی انجینیرنگ کی قوتِ اختراع ہے۔
-دنیا بھر میں اسمارٹ فون تیزی سے تقسیم ہوئے ۔ تھری جی اور فورجی کی وسیع پیمانے پر دستیابی اورسستے سیکنڈ ہینڈ چینی موبائل فون دستیاب ہونے کی بدولت وہ پاکستان میں بھی عام آدمی کی دسترس میں آگئے۔
اکیاون فیصد51% پاکستان کے موبائل صارفین اسمارٹ فون کا استعمال کرتے ہیں
پاکستان خطے میں اسمارٹ فون استعمال کرنے والوں کا چوتھا بڑا ملک ہے اور عالمی سطح پر اٹھارواں سب سے بڑا اسمارٹ فون استعمال کنندہ ہے۔
-پاکستان نے بمشکل اس صورتحال کو قابو کرنے میں استفادہ حاصِل کیا ہے، کیونکہ روایتی کاروبار اس موقع کومکمل طور پر سمجھنے سے قاصِر رہےاور ہمارے آن لائن صارفین کی اکثریت غریب اور بمشکل پڑھی لکھی ہے۔ بہت ہی قلیل تعداد واٹس ایپ اور فیس بُک کے علاوہ کوئی اور ایپ استعمال کرتے ہیں۔ واٹس ایک استعمال کرنے والوں کی تعداد سو فیصد اور فیس بُک ساٹھ فیصد لوگ۔عام پاکستانی کے لیے زبان اور یوزر انٹرفیس کی رکاوٹ ہے، عام الفاظ میں انٹرفیس کو سمجھنا یقیناًتضاد کا باعث ہے۔پاکستان میں آن لائن رابطے کا بنیادی طریقہ واٹس ایپ پر آواز کو ریکارڈ کر کے پیغام (وائس نوٹ )کو بھیجنا ہے، اور اُس کے بعد اردو پیغامات کا رِواج عیاں ہے۔موجودہ ای کامرس کاروبار نے اعلیٰ متوسط طبقے پر توجہ مرکوز کی ہے، یہ طبقہ انگریزی زبان میں بول چال، مطالعہ، اور سوچ بِچار کا اہل ہے، جس باعث اس ای کامرس صنعت کی سالانہ آمدنی چار ارب ڈالرز سے بھی تجاوز ہے۔ اس حوالے سے مزید مطالعے کے لئے یہاں کِلک کریں
:
-اس دور میں جہاں "سب سے پہلے موبائل" جیسی ضرورتِ عام پائی جاتی ہے، وہیں اس دوڑ اور لہر سے مستفید ہونے اور ایسی ایپس بنانے کا ناقابل یقین موقع ہے، جو اوسط پاکستانی شہری کے لیے استعمال میں مزید آسانیاں پیدا کرے ، یہ جو روایتی کاروباروں کے مُفادکے لیے معقول ماحول تشکیل دے، اور مُلک و قوم کی تبدیلی میں بدلاؤ کو تیزی سے یقینی بنائے۔ مثال کے طور پر، چین ایک بڑی اور تیزی سے بڑھتی ہوئی خوردہ (ریٹیل) منڈی ہے، جس کی مالی حیثیت پانچ کھرب ڈالر سے بھی زائد ہے۔چین کی خوردہ (ریٹیل) شعبہ میں نمایاں ترقی کا سہرہ "سُپر ایپس" سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ چین میں زیادہ تر ڈیجیٹل خوردہ (ریٹیل) صارفین کے لئے سب سے پہلا دروازہ تاؤباؤ (علی بابا کا موبائل صارف سے صارف کا رابطہ) یعنی "علی پے" کہلاتا ہے، جو صارفین کو مکمل ای کارس ماحول سے محظوظ ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ "علی پے" لگ بھگ چین کے تمام موبائل صارفین کے موبائل میں موجود ہے جو کہ علی بابا کے پہلے سے وسیع پیمانے پر بِچھے موجود منج اور خدمات کی پیشکشوں کو مربوط کرتا ہے ۔اس سے صارفین اس قابل ہوجاتے ہیں کہ وہ کسی بھی شہ یا خدمات کے حصول کے عوض با آسانی ادائیگی کر سکیں، چاہے وہ "نائیکی" برانڈ کے جوتے ہوں یا اپنی مال و دولت کی انتظامی کاروائیاں۔
مصنوعی ذہانت
-انٹرنیٹ اور موبائل کے باعث اعداد و شمار کے مواد (ڈیٹا) کو دھماکہ خیز رُخ دیا ہے۔ آن لائن سرگرمی سے پیدا ہونے والے اعداد و شمار کے مواد (ڈیٹا) کی مقدار میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ گوُگل پر یومیہ تقریباً ساڑھے تین ارب سے زائد کھوج کی جاتی ہیں، واٹس ایپ صارفین روزانہ پینسٹھ ارب پیغامات کا تبادلہ کرتے ہیں، ہر شخص اوسطاً ایک اشاریہ سات فیصد میگا بائیٹ کا استعمال ہر سیکنڈ میں کرتا ہے۔
- کمپیوٹ پاور میں بھی زبردست اضافہ نمایاں ہے۔ گرافکس کارڈز اور گرافیکل پروسیسنگ یونٹس (جی پی یو) دراصل کمپیوٹر گیمز کی تیز رفتار گرافکس رینڈرنگ کرنے کے لیے تیار کیے گئے تھے۔ان کی خصوصیت یہ ہیں کہ وہ تیز رفتار سانچوں کی ضربیں" میٹرکس ملٹی پلیکیشن" انجام دے سکتے ہیں۔ تاہم، میٹرکس ضربیں نہ صرف گرافکس رینڈرنگ بلکہ مشینی معلومات (مشین لرننگ)کے لیے بھی مفید ہیں۔
- مشینی معلومات (مشین لرننگ )کو ایک تربیتی الگورِتھم کے طور پر سوچا جا سکتا ہے، جو ڈیٹا کی بہت زیادہ مقدار میں داخل کر کے کارآمد نمونوں کی شناخت کر سکتا ہے اور ایک ایسا ماڈل بنا سکتا ہے جس سے سیکھنے کا عمل اور مستقبل کے حاضِر وقت ڈیٹا سے پیش گوئیوں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مصنوعی ذہانت تبدیلی کا باعث ہے کیونکہ یہ ایک مثبت تعامُل کی ایسی کڑی بناتی ہے کہ ہم بحیثیت انسان کس طرح بہتر فیصلے کر سکتے ہیں، اس کے علاوہ یہ ہماری پیش گوئیوں کی درستگی کا ایسا مرکب تشکیل دیتا ہے جو ہمیں سستے، تیز ،اور زیادہ قابل توسیع طریقوں سے مسائل کو حل کرنے کے قابل بناتا ہے۔
- کمپیوٹنگ، انفراسٹرکچر، اور الگورتھم کے لحاظ سے مصنوعی ذہانت کی تعمیری بنیادیں گوُگل، این ویڈیا، اور ایمزون جیسی سہولیات اور اِداروں کے قیام کا باعث بنیں۔پاکستان اپنی زرعی، طبی، تعمیراتی و پیداواری، اور ٹیکسٹائل صنعت کی مخدوش حالت کے پیشِ نظر مصنوئی ذہانت کی دوڑ سے مستفید ہوسکتا ہے۔
-پاکستان میں مصنوعی ذہانت کی اس دوڑ سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کا سب سے اہم درپیش مسئلہ ہاتھ سے لِکھے ہوئے کاغذات پر مشتمل مواد (ڈیٹا) کو ڈیجٹائز کرنا ہے ۔ مثال کے طور پر کپڑے کی پیداواری صنعت پاکستان کی سب سے بڑی صنعت ہے مجموعی قومی پیداوار کا چار فیصد اور برآمدات کا چھیاسٹھ فیصد ہے۔مصنوعی ذہانت تاریخی ، حاضِر وقت آپریشنل ڈیٹا تک رسائی، اور اس کو یکجا کر سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ایسی خُفیہ معلومات بھی فراہم کرتا ہے جو عملی کارکردگی کو بہتر بنا سکتا ہے،۔اس کا مطلب ہے کہ اگر پاکستان مصنوعی ذہانت کی لہر پر توجہ مرکوز کرتا ہے تو بڑے پیمانے پر پیداواری فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
سافٹ ویئر سے چلنے والے اِدارے ہی مستقبل ہیں،اور یہی اِدارے روایتی ہائی ٹیک سے ہٹ کر صنعتوں پر غلبہ حاصل کر رہے ہیں۔ سافٹ ویئر کی دنیا غالب آچُکی ہے، یا یوں کہہ لئے کہ روائیتی جدتوں کو نِگل چُکی ہے، یہاں تک کہ وہ صنعتیں جو جسمانی مصنوعات (ایٹم) پر توجہ مرکوز کرتی ہیں سافٹ ویئر (بِٹس) کے ساتھ مربوط ہو رہی ہیں۔ ٹیسلا گاڑیاں (ایٹم) بناتا ہے، لیکن ایک سافٹ ویئر اپ ڈیٹ (بِٹس) ان گاڑیوں کی رفتار کو مزید بہترکر سکتا ہے اور راتوں رات ازخود چلنے کی صلاحیت بھی شامل کر سکتا ہے۔ ہر صنعت میں سافٹ ویئر کا پھیلاؤ تبدیلی اور جڈت کے عمل کو اتنی سرعت بخش رہا ہے جیسا کہ ہلے کبھی سوچا بھی نہ گیا تھا۔ دنیا نہ صرف تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے، بلکہ جس رفتار سے بڑے نئے ٹیکنالوجی پلیٹ فارمز بنائے جا رہے ہیں، وہ جدت کی ہرنئی لہر کی آمد کے درمیان وقفے کو مزید کم کر رہی ہے۔
آج ایسا لگتا ہے جیسے کلاؤڈ ، اے آئی، اے آر اور وی آر جیسی متعدد لہریں بیک وقت اُمڈ آرہی ہیں۔ اب' ویب 3 ' بھی ہم پر متعارف ہو چکا ہے جہاں اب ویب کا مواد (ڈیٹا) بڑی جدت آمیز کمپنیوں کی نگرانی و دسترس سے باہر جاچُکا ہے۔جبکہ بلاک چین ٹیک اس مواد (ڈیٹا) کی اجتماعی نگرانی اور میزبانی صارفین کی مدد سے بخوبی انجام دے رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ ایپ، جو بلاک چین کی مدد سے تیار کی جاتی ہیں، جیسا کہ سوشل میڈیا، مارکیٹ پلیس، یا سرچ انجِن، اپنے صارفین کو بغیر کسی مصالحت کے حصہ لینے، لین دین کرنے اور تخلیق کرنے کے قابل بنائے گی جیسا کہ ویب 2.0 میں ہے ۔ ویب 3.0 کے کچھ نظریات کے مطابق، شُکر ہے کہ آن لائن تجربہ بھی کافی حد تک مختلف ہوگا، جو صارفین اور مشینوں کے درمیان روابط کو کُشادہ اور تیز ترین بنائے گا۔ کرِپٹو اور دیگر ویب 3.0 کے تصورات جیسا کہ، این ایف ٹی، ڈی اے او، اور ڈی فائی، کے تناظر میں ویب 3.0 کی دوڑ اب مقبولیت اختیار کر رہی ہے۔
***
پاکستان کے شہری انسانی سرمائے کی ترقی، توانائی، موسمیاتی تبدیلی، تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور زراعت سے متعلق قوم کے مشکل ترین مسائل کو حل کرکے اگلی دو دہائیوں کے دوران ناقابل یقین وصف پیدا کرنے کے لیے اچھے مقام پر موجود ہیں۔پاکستان کے پاس واضح "فرسٹ-اسکیلر" یعنی علمبرداری کے مواقع موجود ہیں، اور پاکستانی مارکیٹ جرات مند اور اختراعی پاکستانی کاروباریوں کے لیے اپنی گرفت مضبوط کئے ہوئے ہے، اب وقت آ گیا ہے کہ ہلچل مچا دی جائے۔
* AI بڑے فلسفیانہ سوالات کھڑا کرتا ہے، جو اس مضمون کا دائرہ کار نہیں ہیں، لیکن ہم ان پر مختصراً بات کرنا چاہیں گے: AI حقیقت تک رسائی حاصل کرتا ہے جس طرح سے انسان اس تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ AI سے چلنے والی ٹکنالوجی معلومات کو سمجھنے اور اس پر کارروائی کرنے میں مستقل ساتھی بن جائے گی۔ یہ استدلالی مخلوق کے طور پر ہمارے تجربے کو بدل دے گا اور حقیقت کے ساتھ ہمارے تعلقات کو مستقل طور پر بدل دے گا۔ AI کا ارتقاء انسانی ادراک، ادراک اور تعامل کو کیسے متاثر کرے گا؟ اے آئی کا ہماری ثقافت، ہمارے تصورِ انسانیت، اور آخر کار ہماری تاریخ پر کیا اثر پڑے گا؟
اب آگے پڑھیں
نوجوانوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ قومی فلاح و بہبُود کو ذاتی مفاد اور اپنی ترقّی پر فوقیت دیں۔
اس موضوع پر مزید مضامین