ہماری خواتین کو آزادی کا اِحساس دیں
جناح کے نظریات
مُسلم لِیگ نے یہ کیا ہے کہ آپ کو مُسلمانوں کے رجعت پسند عناصر سے چُھٹکارہ دِلا دیا ہے اور اس خیال کو پروان چڑھایا ہے کہ وہ لوگ جو اپنا خُودغرض کھیل کھیلتے ہیں، غدّار ہیں۔ اس نے یقینی طور پر آپ کو مولویوں اور مولاناؤں کے ناپسندیدہ عناصر سے آزاد کیا ہے۔ مَیں مجموعی طور پر تمام مولویوں کی بات نہیں کررہا ہُوں۔ اُن میں سے کُچھ ایسے افراد ہیں جو کِسی بھی دُوسرے فرد کی طرح محبُّ الوطن اور پُرخُلوص ہیں؛ مگر اُن میں ایک حِصّہ ایسا ہے جو ناپسندیدہ ہے۔ خُود کو برطانوی حکومت، کانگریس، رجعت پسند عناصر اور نام نِہاد مولویوں کے چُنگل سے چُھڑانے کے بعد، کیا مَیں نوجوانوں سے یہ اپیل کرسکتا ہُوں کہ ہماری خواتین کو آزاد ی کا احساس دیں۔ یہ انتہائی اہم ہے۔
-مسٹر جناح / قائداعظم
- تقریر: علی گڑھ۔ 1937۔
گہرے تاثرات
پاکستان کی معاشرتی ساخت میں پرتاثیر اور براہِ راست ترمیم کے لیے اس کی معاشرتی توانائی کا مُستقل احیاء مطلوب ہے۔ ہم یہ فرض نہیں کرسکتے کہ معاشرتی ترقّی اور اِرتقاء ایک خُودکار عمل ہے۔ نہ ہی ہم یہ قیاس آرائی کرسکتے ہیں کہ بد سلوکیاں اور بُری روایات اور کام کو انجام دینے کے لاپرواہ طریقے ایک دِن خُود بخود ختم ہو جائیں گے۔
اِس کے بجائے، ہمیں مکمّل طور پر یہ ادراک ہونا چاہئیے کہ ہر خُودغرض رُجحان کے ساتھ ایسے افراد جُڑے ہیں جو ان تشددآمیز روایات کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ مزید برآں یہ کہ، پاکستان اس بارے میں بخوبی آگاہ ہے کہ معاشرتی ترقی کا انحصار اس کے شہریوں کے اندر رجحانات اور ترغیب پر منحصر ہے۔
ہم اِس بات سے بھی آگاہ ہیں کہ معاشرتی جدّت کی جانب اٹھائے گئے بے باک اور آزاد خیال اقدامات کا نتیجہ قدامت پسند قُوّتوں کی جانب سے ایک
ردِّعمل کی صورت میں نِکلے گا۔
قدامت پسند قّوّتوں کے ساتھ ایک مدبرانہ کھیل میں -- پاکستان کے شہری کبھی بھی ارادتاً ایک نئے تصور کو کچل کر یا مسخ کر کے روایتی تعصّب کے ساتھ ہم آہنگ نہیں بنائیں گے اور نہ ہی وہ اس حقیقت کے آگے منطقی ہار مانیں گے کہ ہمارے معاصر کی اکثریت ابھی تک ایک نئے تصّور کو قبول کرنے کے لیے تیّار نہیں ہُوئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم سمجھوتہ نہیں کر سکتے اور سب سے بڑے سچ کو جھٹلا نہیں سکتے۔
نئے ترقّی پسند تصورات کو وہاں عملی طور پر نا قابلِ عمل قرار دیا جا سکتا ہے، جہاں، ذاتی مفاد کی شکل میں مُناسب مُحرّک کی عدم موجودگی میں، اس کی تکمیل کے لیے یہ امر درکار ہے کہ کوئی فرد یا افراد کی جماعت، سب کے مفاد کے لیے اپنے ذاتی مفاد کی قُربانی دے گی۔ پاکستان کے شہری اپنی خواتین کی آزادی کے لیے ایسی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔
اِس ترقّی پسند جدوجہد کی جانب ہم مذہبی انتہاپسندوں اور مُلّاؤں کے لیے میدان کو کُھلا نہیں چھوڑ سکتے کہ وہ ہماری خواتین کے معاشرتی کِردار کو وضع کریں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ہم واقعی میدان کو کُھلا چھوڑتے ہیں تو ہم دانستہ طور پر ایسے افراد کے ہاتھ مضبوط کررہے ہیں جو اس طاقت کا صحیح اِستعمال کرنے کیلئے فیصلہ سازی، تجربے اور طبیعت کے اعتبار سے نا موزوں ترین ہیں۔ اور ہم اُنہیں نہ صرف دینی معاملات نمٹانے کے لیے مضبوط کررہے ہیں، بلکہ، زیادہ اہم بات یہ ہے کہ، ہم اُن کو لامحدود انواع کے اہم ترین معاشرتی اور سیاسی معاملات نمٹانے کے لیے مضبوط کررہے ہیں۔
اِس وجہ سے پاکستان کے شہری ہمارے معاشرے میں موجود درج ذیل اہم بُرائیوں کو شِکستِ فاش دینے کے لیے ایک بے باک جذبے کے ساتھ کام کریں گے:
خواتین کا کردار گھر اور گھریلو ذمہ داریوں تک محدود ہے۔
یہ مُجرمانہ تصور ہماری خواتین کو اُن کو گھروں تک محدود کرتا ہے، اُن کو معاشی طور پر مردوں پر اِنحصار کرنے کیلئے مجبور کرتا ہے، اُن کی سیاسی شِرکت کو بھی محدود کرتا ہے۔
سچ یہ ہے کہ ہماری تاریخ، تہذیب اور اخلاقیات یہ تقاضا کرتے ہیں کہ خواتین کو ہماری قومی معیشت اور سیاست میں نہ صِرف شِرکت کرنی چاہئیے بلکہ قائدانہ عہدے بھی سنبھالنے چاہئیں۔
:اس جُھوٹ کو عملی طور پر شِکست دینے کے لیے، پاکستان
قومی سطح پر بڑی مہمات کا آغاز کرے گا تا کہ اس خیال کو مقبول عام کیا جائے کہ خواتین کی معاشی، معاشرتی اور سیاسی شرکت ہماری قوم کی ترقّی کے لیے انتہائی اہم ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئیے کہ جناح نے واضح طور پر بیان دِیا: "کوئی بھی قوم کامیابی کی بُلندیوں کو نہیں چُھو سکتی جب تک کہ خواتین آپ کے شانہ بہ شانہ نہ ہوں۔ ہم بُری روایات کے مُتاثرین ہیں۔ یہ انسانیت کے خلاف ایک جُرم ہے کہ ہماری خواتین کو گھروں کی چاردِیواری کےاندر قیدیوں کی طرح چُپ کرا دیا جاتا ہے۔ اس افسوسناک حالت کی کہیں بھی اجازت نہیں دی گئی، جس میں ہماری خواتین کو رہنا پڑتا ہے"۔
تمام پاکستانی خواتین کے درمیان ایک اعلیٰ سیاسی آگہی کا احساس اُجاگر کرے گا: خواہ وہ خواتین پردہ کرتی ہوں یا نہ کرتی ہوں۔ ایسی بہت سی بُرائیاں ہیں جنہیں خواتین جھیلتی ہیں، اُن کو خاموشی کے ساتھ ناگُزیر کے طور پر قبول کر لیا جاتا ہے کیونکہ وہ افراد جن کے پاس سیاسی قُوّت ہے، اُن افراد میں سےنہیں جن کو وہ بُرائیاں جھیلنی پڑتی ہیں۔ ہماری خواتین میں ایک اعلیٰ سیاسی آگہی کا ہونا اِن بُرائیوں کے تدارُک کے لیے ضروری ہے
دیہی عِلاقوں میں انٹرنیٹ کی فراہمی کو یقینی بنائے گا تا کہ وہ خواتین جو اصل خطرات اور مہلک تشدّد کےحقیقی امکانات سے دوچار ہوتی ہیں وہ اپنے گھروں میں رہتے ہُوئے بھی ٹیکنالوجی کے ذریعے سیاسی طور پر شِرکت کرسکیں۔
اپنے شہروں کی خواتین کے مطابق منصوبہ بندی کرے گا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ہم دنیا کے کسی بھی بڑے شہر کی سڑکوں کا جائزہ لیتے ہیں اور اُس کا موازنہ اپنے شہروں سے کرتے ہیں، تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہماری سڑکوں پر خواتیں کی کم تعداد واضح طور پر عیاں ہے۔ پاکستان کے شہری نقل و حرکت کی آزادی کو اپنے حقیقی معنوں میں مُکمل طور پر فعّال کرنے کا اِرادہ رکھتے ہیں اور ہمارے عظیم شہروں میں محفوظ عوامی مقامات بھی بنانا چاہتے ہیں۔
بیٹیاں جُدا ہونے کیلئے یا بیاہ دینے کیلئے ہوتی ہیں جبکہ بیٹے، خاندان کے مضبوط ستون گردانے جاتے ہیں۔
یہ جُھوٹ ہماری خواتین کی امنگوں کو شادی تک محدود کر دینے کا ذمہ دار ہے، اُن کی اعلیٰ تعلیم کو محدود کرنے اور شادی کے بعد ایک کاروباری زندگی گزارنے کی حوصلہ شِکنی کا باعث ہے۔ اس کے نتیجے میں - اعلیٰ ادبی، سائنسی اور کاروباری راہوں کا مُکمّل تصور اور اُن کی پیروی نہیں کی جاتی ہے۔
سچ یہ ہے کہ ہماری خواتین، قوم کے کِردار کی بُنیادی معمار ہیں لہٰذا، ایک عالمی درجے کی کُلی تعلیم حاصل کرنا اور کاروبار کی تقلید کرنا ہماری خواتین کا ایک قومی فریضہ ہے۔ کیونکہ اگر ہماری خواتین کے مابین سیاسی آگاہی اُجاگر ہو جائے اور اگر وہ دولت کما رہی ہوں اور معاشی طور پر فعّال ہوں، تو یاد رکّھیں کہ ہمارے بچّوں کو ذیادہ فکر کی ضرُورت نہیں۔
سب سے آخر میں، ہمیں مسٹر جناح کے ان الفاظ کو یاد رکھنا چاہئیے کہ "دُنیا میں دو طاقتیں ہیں؛ ایک تلوار ہے اور دُوسری قلم ہے۔ اِن دونوں کے درمیان ایک عظیم مُقابلہ اور مسابقت ہے۔ ایک تیسری طاقت ایسی ہے جو اِن دونوں سے زیادہ طاقتور ہے، اور وہ خواتین کی طاقت ہے"۔
وقت آگیا ہے کہ پاکِستان مُکمّل طور پر اپنی تِیسری قُوّت کی نشوونُما کرے۔
اب یہ پڑھیں
پاکستان فرانسیسی انقلاب کے دوران جمہوریت ، آزادی، مساوات اور بھائی چارے کے اصولوں کی تعریف کرتا ہے۔ فرانس کے ستھ ہمارے مُشترکہ نظریات پر مسٹر جناح کے نُقطہءِ نظر کو جانیں۔
یکساں مضامین جو شاید آپ کو پسند آئیں