top of page
Screen Shot 2023-02-12 at 5.58.41 PM.png

کشمیر

جناح کے نظریات

ہم نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ ریاستوں کے انتخاب کا عمل اور فیصلہ کسی بھی قسم کے جبر، زبردستی، اور دباؤ سے آزاد ہوگا۔ وہ ریاستیں جو پاکستان  کی آئین ساز اسمبلی میں شمولیت اختیار کرنا چاہتی ہیں ہمیں ہمہ وقت مذاکرات اور باہمی مفاد کے عہد و پیمان پر تیّار اور آمادہ پائیں گی۔ اور وہ جو مکمل آزادی و خودمختاری کا انتخاب کرنے کی خواہشمند ہیں، اس عمل کو دونوں کے لیے مفید پائیں گے، جس سے  باہمی مفاد کے تحفظ کی یقین دہانی بھی ہوسکے گی۔

 مسٹر جناح / قائداعظم -

-  تقریر:  قائد نے کشمیر کے سیاسی نظربند افراد کی رہائی کا مُطالبہ کیا۔ 11 جولائی 1947

سیاق و سباق: کشمیری مسلم رہنماؤں کے ساتھ ایک گھنٹہ طویل انٹرویو کے بعد پریس میں بیان۔

jinnah_main.JPG

گہرے تاثرات

کشمیر کا المیہ 

کشمیر جنوبی ایشیا کا وہ تنازعہ ہے جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد از تنازعات جیسا کہ، سرد جنگ، ویتنام کی جنگ، چین - امریکہ محاز آرائی،  اور جنوبی افریقہ میں نسلی عصبیت ، اور اسرائیلی-عرب  تنازع،  ان سب سے زیادہ گمبھیر اور طویل رہا ہے۔

کشمیر، بھارت اور پاکستان کے مابین جارحیت کا بُنیادی سبب ہے اور مسئلہ کشمیر  کشمیری عوام کے لیے لامحدود تکالیف کا ایک ذریعہ  بھی

ہے۔ دو مُکمّل جنگوں کے باوجود، بھارت  اورپاکستان کی سرحد پر مسلسل عسکری جھڑپیں، کشمیری تحریکِ آزادی، بھارتی ریاست کی جانب سے اس کی سرکوبی کے تہتر سال ،  اور محصور کشمیریوں کی حالت زار کو دیکھ کر بھی، نہ بھارت اور نہ ہی پاکستان نے اپنے نُقطہء نظر پر نظرثانی کی ہے۔


پاکستانی طریقِ کار 

کشمیری جذبات اور مفادات، پاکستان اور بھارت کے فِکری مفادات پر فوقیت رکھتے ہیں۔ کشمیر یوں کی اُمیدیں، خواہشات اور عزائم ، پاکستان اور بھارت کے سرحدی مقاصد سے بڑھ کر ہیں۔ پاکستانی موقف  ہمیشہ کشمیریوں کی آزادی  کی اُمنگوں کی مُعاونت اور حمایت کرتا رہے گا۔ اس سےکسی بھی قسم کا انحراف، پاکستانیوں کے اپنے برتاؤ، کردار، اور جذبے کے مُطابق نہیں ہے۔ پاکستان کے شہری اس بُنیادی اصول کی پُوری طرح تائید کرتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کے حتمی تصفیہ کار، کشمیر کے عوام ہیں۔

   

کشمیری بیگانگی

حقیقت یہ ہے کہ کشمیری عوام سے بھارت کی لاتعلقی مکمل طور پرناقابلِ تلافی ہے۔اگر بھارت فی الحقیقت  کشمیریوں کی خُودمختاد حکومت کی خواہشات کو پُورا نہیں کر سکا، تو دُنیا میں بھارت کو ہمیشہ ایک جابر کے طور پر جبکہ پاکستان کو بطور محافظ۔  سمجھا جائے گا۔ بھارت، کشمیری عوام کے خلاف استحصال، جارحانہ قوت اور غیرقانونی طریقے استعمال کرنےکی تاریخ رکھتا ہے۔ حال ہی میں، بھارت نے کشمیر میں مُردہ آنکھوں کی ایک وبا کو پھیلایا، اور اُس کی جارحیت کےباعث کشمیریوں کی قوتِ بینائی چھیننے کی کوششوں میں بھارتی مسلح افواج نے کیمیائی مواد سےلیس چھروں کی بندوقوں کا استعمال نہتےعوام پرکیا ۔جس کےباعث کئی کشمیری اپنی بینائی کھو بیٹھے،  نتیجتاً  بھارت کو بین الاقوامی غُصّےاور مذمت کا سامنا کرنا پڑا۔

بھارت ایک ظالم و جابر ریاست کے طور پر انسانی اور اخلاقی بنیادوں پر  ہمیشہ شرمسار ہی رہا ہے۔ جبکہ دوسری جانب، پاکستان اپنے اقلیتی جھڑپوں، بدعنوانی کی داستانوں، فرقہ وارانہ تشدد اور سیاسی چپقلشوں کے اندرونی مسائل سے دوچار رہا ہے۔ کشمیری عوام کسی بھی ایسے ریفرنڈم یعنی رائے شُماری کے لیے خواہشمند نہیں جو اُنہیں بھارتی حکومت کے زیرِ اثر زندگی کو بدل کر پاکستانی حکومت کے زیراثر رہنے تک محدود کردے۔ تاہم، آرٹیکل 370 کی تنسیخ نے اس سوچ سے بھی محروم کر دیا ہے۔ 

آرٹیکل 370

بھارت نے اپنی حکمت کے تئیں بھارتی قانون کے آرٹیکل 370 کی تشکیل کی تھی جس نے کشمیر کے خِطے کو خصوصی درجہ دیا، کہ اس کا اپنا علیحدہ قانون، ایک ریاستی پرچم اور ریاست کی اندرونی انتظامیہ کے اوپر خُودکار حکومت ہو۔ اِس کا درپردہ مقصد یہ تھا کہ کشمیری عوام کی جانب بھارت کے خلوص کا مُظاہرہ کیا جائے۔ اس کے نتیجے میں اس نے کشمیر کے اندر ایسےعناصر بنا دئیے جو بھارت کا ایک قانونی حِصّہ بننے کی خواہش رکھتے تھے۔

حال ہی میں بھارت نے آرٹیکل 370 کو ہٹانے کا فیصلہ کیا، کشمیر میں افواج کو مُستعین کیا، کشمیری قائدین کو اُن کے گھروں میں نظربند کیا۔ انٹرنیٹ، موبائل فُون حتّیٰ کہ لینڈ لائین کی بندش کرکے کشمیر کا دُنیا سے رابطہ مُنقطع کردیا، جس کی وجہ سے لاکھوں افراد نارسا ہو گئے اور مواصلاتی سرگرمیاں کرنے سے قاصِر ہوگئے۔ بھارتی مقصد کشمیر کےآبادیاتی اعدادوشُمارمیں ردو بدل کر کےکشمیر کو اعداد و شمار کی بُنیاد پر ہندو اکثریت بنا نا ہے۔ اس سے یقینی طور پر کشمیری عوام اپنی خُودمختار حکومت کرنے کے حق سے محروم ہوجائیں گے اور ان میں شدید تلخی اور بیگانگی جنم لے گی۔ ایک ایسا تصفیہ جو کشمیری تاریخ، تہذیب اور جُغرافیے کے قدرتی، اورہزار سالہ روایت کو محفوظ نہ کرے،  وہ مُمکنہ طور پر نہ تو کشمیری امنگوں کو تسکین دے گا اور نہ ہی بھارت اور پاکستان کے درمیان پائیدار امن کی ضروریات کو پُورا کرے گا۔

محمدعلی جناح نے اس حوالے سے خبردار کیا کہ: "حب الوطنی، انصاف، منصفانہ اقدام اور خیرسگالی کی آہ و بکا منہ کے بل گر جائیں گی۔ اس کا اندازہ لگانے کے لیے سیاسی حکمت و دانشمندی درکار نہیں کہ تمام حفاظتی اقدامات اور تصفیے ردّی کا ٹکڑا ہوتے ہیں، جب تک کہ اُنہیں اقتدار سے تقویت نہ ملے۔ سیاست کا مطب طاقت کا ہونا ہے، اور صرف انصاف کی پُکاروں یا منصفانہ اقدامات یا خیرسگالی پر ہی انحصار کرنا نہیں ہے"۔

کشمیریوں نے قائد اعظم کے الفاظ اور اُن کی تنبیہ کا براہِ راست تجربہ کیا جب اُنہوں نے ہندو انتہاپسند عناصِر کے خلاف انتباہ کیا جو بھارتی آبادی کے جذبات اور ضمیر پر ایک مضبوط انداز سے حاوی ہیں۔ 

فسطائیت کا عروج

ہر قوم کے اندر نسلی تعصب، فسطائیت اور انتہاپسندی کے عناصر ہوتے ہیں۔ مثلاً امریکہ کے اندر ایک اکثریت ایسی ہے جو سفید فاموں کی  برتری پر یقین رکھتی ہے۔ اسی طرح پاکستان کے اندر مُسلمان انتہاپسند موجود ہیں۔ یہ عناصر خطرناک ہیں اور یہی عناصر کسی بھی قسم کے جبر، ظلم ، اور مواقعوں کی محرومیوں کا بہترین فائدہ اُٹھاتے ہوئے مُلک و قوم کی سوچ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ہر قوم کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ کبھی ایسے ریاکار عناصر کو حکومت کی تشکیل کے مواقع نہ دیں۔

پاکستان کے شہریوں کو اس امر کی گہرائی کا اندازہ ہے کیونکہ اُنہوں نے ضیاءالحق کے آمرانہ دور کا تجربہ کیا ہے، جس نے واقعی مُلک کو مذہبی انتہاپسندی کی جانب دھکیل دیا اور جس کی امریکہ اور سعودی حلیف کی جانب سے شدت کے ساتھ حمایت کی گئی۔ تاہم، اُس کے بعد سے کبھی بھی کوئی مذہبی انتہاپسند عناصر اس قابل نہ ہوسکے کہ پاکستان میں حکومت قائم کرسکیں کیونکہ لوگوں کی اکثریت نے شِدّت کے ساتھ اُن کی مُخالفت کی۔ بدقسمتی سے ، بھارت نے اس کے برعکس جمہوری طور پر 'بھارتیہ جنتا پارٹی' (بی جے پی) کو منتخب کیا ہے جس کی جڑیں  فسطائی ہندو انتہا پسند تحریک میں مِلتی ہیں جو ہٹلر سے، حتمی حل سے مُتاثر ہے اور ہندوستان سے مُسلمانوں کی نسل کا صفایا کرنے کے عمل پر یقین رکھتی ہے۔ 

 

پاکستان کی پالیسی

پولیٹیکل سائنس کی زبان میں، بھارت ایک "بحالتِ اصلی قُوّت" ہے کیونکہ اس نے کئی علاقوں کو اپنی لالچ اور حرص میں قبضہ میں لے رکھا ہے اور ایسے میں ان کی حالیہ علاقائی صورت کومحفوظ رکھنے کے لئے ہمیشہ سرگرم رہتا ہے۔مزید یہ کہ بھارت کے فیصلہ ساز اُمراء کا گروہ اس بات کا شدید قائل دکھائی دیتا ہے کہ بھارت خود کو دُنیا کے تصور میں ایک عظیم طاقت کے طور پر نمایاں رکھے۔ عمومی طور پر، اعلیٰ طاقتیں غیرمساویت کی فضاء کو درگزر کر کےکمزور ہمسایوں کے ساتھ سمجھوتہ کرتی ہیں۔

پاکستان کی حیثیت ایک "انقلابی طاقت" کی مانند ہے، جوبحالتِ اصلی، یعنی رتبہ قائم رکھنے کے فرسوُدہ خیالات کو تبدیل کرنے کے لئے متحرک ہے۔ غیر معیاری اور کڑی ضد پر مبنی"بحالتِ اصلی طاقت" کے برعکس، "انقلابی طاقت" کے پاس  لچک دار حکمتِ عملی اور نِت نئےطریقہ 

کارسے مستفید ہونے کے مواقع موجود  ہوتے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے لیے سیاسی تصفیے میں مداخلت کا امکان موجود ہے۔ پاکستان کے شہری پالیسی کی تشکیل کو عسکری بُنیادوں سے آگے لے جانے اور پُرامن طریقِ کاروں کا دُگنا کرنے کے لیے پُرعزم ہیں، تاکہ کشمیر کے عوام کو تعلیم دی جائے، اُنہیں مُنظّم کیا جائے اور بینُ الاقوامی کمیونٹی کو مُتحرک کیا جائے تاکہ ہندوستانی حکومت پر متعدد دباؤ ڈالے جائیں کہ وہ ایک معقول اور دائمی تصفیے کے حق کا انتخاب کرے۔  پاکستان کی عوام آہنی عزم، جذبے اور یقین سے سرشار ہیں۔

ایک تابناک نظریہ جس کا حتمی  مقصد دوقومی دوستی   ہے، جس کا حصول  صرف خُودمختار کشمیر بناکر، جو کُھلی سرحدوں کے ساتھ ہو، جس سے "اتحاد و وقف شدہ  خودمختاری" کا حصول مُمکن ہو۔ جہاں جمّوں اور لدّاخ ایک اعلیٰ درجے کی خُودمُختار حیثیت رکھتے ہیں،  وہیں بھارت، ایک خاص ترتیب کے تحت  اُن پر اپنی حکومت کا دعویٰ کرسکتا ہے۔ اسی طرح آزاد کشمیر کو اسلام آباد میں موجود وفاقی حکومت کی جانب سے مکمل خُودمُختاری اور آزادی کی یقین دہانی کروائی جاسکتی ہے۔ جہاں پاکستان اُن کی سالمیت کے نگراں کے طور پر موجود رہے۔ وادی کے اُوپر۔۔۔ کشمیر کا تاریخی اور جُغرافیائی دل اور کشمیریات کا گھر۔۔ اس میں اقتدارِ اعلیٰ کی خصوصیات کو لایا جاسکتا ہے۔ اس طرح ہم ایک متحد کشمیر حاصل کرسکیں گے جو بھارت اور پاکستان کے ثالثی راہداری کا کام سرانجام دے گا۔

 (ماخذ: کشمیر کے لئے مسئلہ کشمیر کا حل –تحریر اقبال احمد )

ایک انقلابی طاقت کے طور پرپاکستان کے شہری ایک ایسی حکمتِ عملی مرتب کرنا چاہتے ہیں جو عسکری شرائط سے باہر ہو اور قلم کی طاقت کے آگے خم ہو ،تاکہ کشمیر کے عوام کو تعلیم فراہم کی جائے، اُن کو منظم اور مُتحد کیا جائے ، اور بین الاقوامی برادری کو متحرک کیا جائے کہ وہ بھارت کی حکومت پر متفرق دباؤ ڈالیں تاکہ وہ ایک معقول اور دیرپا رہنے والے تصفیہ کی حمایت میں آجائے۔  دُنیا کو یہ جان لینے دیں کہ پاکستان کے شہری فولادی عزائم رکھنے والے، پُختہ ارادوں کے مالک، پُرعزم، تمام حالات و واقعات کے لیے تیّار اور کسی بھی خطرے کا سامنا کرنے کے لیے ہر دم تیار ہیں۔

:ہمیں قائدِاعظم محمد علی جناح کے یہ الفاظ یاد رکھنا چاہئیے

ہندو کانگریس کی موجودہ قیادت، خصوصاً گُزشتہ دس سالوں کے دوران، بھارت کے مُسلمانوں کو مزید تنہا کرنے کی ذمّہ دار رہی ہے۔ ایک ایسی پالیسی کی تقلید کرکے جو خصوصی طور پر ہندوانہ ہے؛ اور چُونکہ اُنہوں نے چھ صُوبوں میں حکومت بنالی ہے جہاں وہ اکثریت میں ہیں، اُنہوں نے اپنے الفاظ، افعال اور منصوبے کے ذریعے یہ واضح طور پر دکھایا ہے کہ مُسلمان اُن کے ہاتھوں کسی انصاف یا منصفانہ اقدامات کی توقع نہیں کرسکتے۔ وہ جب بھی اکثریت میں آئے اور جب بھی اُن کو موافق ہوا،  انہوں نےمُسلم لیگ کی جماعتوں کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کیا اور اپنے عہد و وعدوں کی بلامشروط ناکامی پراپنے دستخطوں کامظاہرہ کیا۔

یہاں تک کہ قلیل سی طاقت اور معمولی سی ذمہ داری نبھانے کے دوران، اکثریتی برادری نے کھُلے انداز میں اپنا خفیہ روپ عیاں کر دِکھایا، اور واضح کر دیا کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کے لیے  ہی ہے۔جبکہ کانگریس کے قومیت کے نام پر ڈھونگی بہانے، جبکہ ہندو مہاسبھا  کی جانب سے ایک لفظ بھی ادا نہ کیا جانا۔

 

مَیں چاہتا ہوں کہ مُسلمان خُود پر یقین رکھیں اور اپنی قسمت کو اپنے ہاتھوں میں لیں۔ ہمیں  اہل ایمان اور اہل تحریک کی ضرورت ہے، جن کے پاس ہمت اور عزم ہو، اور جو اپنی عقائد  و حق کے حصول کے لیے ایک ہاتھ سے  لڑنے کی بھی جُرّت رکھتے ہوں،  اس لمحے چاہے ساری دُنیا ہی اُن کے ما لف کیوں نہ ہو۔ ہمیں طاقت ،پختگی، اور پائیداری کو پروان چڑھانا چاہئیے ، یہاں تک کہ مُسلمان مکمل طور پر منظم نہ ہوجائیں اور طاقت اور مضبوطی کی اُس نہج کو حاصل نہ کرلیں جوقوم کی یکجہتی اور اتٗحاد سے وجود میں  آنی چاہئیے۔

اس راہ کی طرف ، یہ بالکل ضروری ہے کہ ہم پاکستان کو ایک خوشحال اور ترقی پسند قوم بنائیں۔  

"اب وقت ہے کہ ہم اپنے عظیم مُلک کی تعمیرنو اوراصلاح اور کریں۔ یہ آپ کے  اپنےاختیار میں ہے،  ہمارے پاس بے شک لازوال ہُنر اور صلاحیتیں موجود  ہیں، بلاشبہ پاکستان بےشمار وسائل اور قوت سے شاد ہے۔خُدا نے ہمیں قدرت کی تمام دولتوں سے مالامال کیا ہے اور اب یہ انسان سے تقاضا کرتی ہیں کہ ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھایا جائے۔ اسی اثنا میں اُفق پر گہرے بادل منڈلارہے ہیں،میری  التجا  اور پاکستان کے لوگوں کو یہ پیغام پہنچانےدیں۔ اپنے اندر جوش وخروش اور جذبہ پیدا کریں اورپُر اُمید ہو کر اپنے عزم کے ساتھ آگے کی جانب بڑھیں۔ یاد رہے ہمیں یہ کر دِکھانا ہوگا، کیونکہ ہم یہ کرسکتے ہیں ۔ کیا ہم دل برداشتہ ہیں؟ بالکل نہیں!  مُجھے اعتماد ہے کہ بیس کروڑ  افراد کی ایک متحد قوم جو ایک پُختہ عزم اور ایک عظیم تہذیب و تاریخ رکھتی ہے، اسے کسی چیز سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ اب یہ آپ پر ہے کہ کام، کام اور صرف کام کریں، کامیابی ہمارا مقدر ہے۔ اور ہمارا نصبُ العین کبھی نہ بُھولیں: اتحاد، تنظیم، یقین محکم۔

Read This Next

Similar articles you may like

eiffel.JPG

پاکستان جمہوریت ، آزادی ، مساوات اور بھائی چارے کے اصولوں کی تعریف کرتا ہے۔  فرانسیسی انقلاب.

Fight for Self-Government
Screen Shot 2023-02-04 at 11.05.59 PM.png
bottom of page