top of page
henry-ford-gettyimages-51098603.jpeg

ہنری فورڈ (30 جولائی، 1863 - 7 اپریل، 1947) ایک امریکی صنعت کار اور کاروباری رئیس تھے۔ وہ فورڈ موٹر کمپنی کے بانی اور بڑے پیمانے پر پیداوار کی اسمبلی لائن تکنیک کے تخلیقی سربراہ تھے۔ فورڈ نے پہلی موٹرکار بنائی جسے متوسط ​​طبقے کا امریکی لینے کی استطاعت رکھتا تھا، اور اس کے موٹرکار کو ایک پر تعیش شے سے سہل الحصول سواری میں بدلنے نے 20 ویں صدی کے منظر نامے پر گہرا اثر ڈالا۔

نئے کاروباری مواقع پیدا کرنے والی جِدّت 

جناح کے نظریات

میرے نوجواں دوستوں، اب تک، آپ لکیر کے فقیر بنتے رہے ہیں۔ اپنی ڈگریاں حاصل کر لینے کے بعد جب آپ کو ہزاروں کی تعداد میں اس یونیورسٹی سے نکال دیا جاتا ہے، تو آپ کی سوچ اور خواہش سرکاری ملازمت حاصل کرنے کی ہوتی ہے۔ جیسا کہ آپ کے وائس چانسلر نے درست کہا ہے کہ پرانے نظام تعلیم اور اب تک جو نظام حکومت رائج ہے، اس کا اصل مقصد واقعی اچھے ہنر مند کلرکوں کا حصول تھا۔ بلاشبہ، ان میں سے کچھ نے ترقی کی اوراپنا مقام پا لیا، لیکن پس پشت خیال اچھے اہل کلرک حاصل کرنا تھا۔ سول سروس میں بنیادی طور پر عملہ برطانوی تھا اور ہندوستانی عنصر کو بعد میں شامل کیا گیا اور یہ آہستہ آہستہ بڑھتا گیا۔ اس فلسفے کی بنیاد ایک ذہنیت، ایک نفسیات، ایک ذہنی کیفیت پیدا کرنا تھی کہ ایک اوسط درجے کا آدمی، جب وہ بی اے یا ایم اے پاس کرتا ہے تو اسے حکومت میں کوئی نوکری تلاش کرنا ہوتی ہے۔ اور اگر وہ یہ حاصل کر لیتا تو اسے لگتا کہ وہ اپنے عروج پر پہنچ گیا ہے۔ میں جانتا ہوں اور آپ سب جانتے ہیں کہ اس کا نتیجہ کیا نکلا ہے۔ ہمیں تجربے سے معلوم ہوا ہے کہ ایک ایم اے ٹیکسی ڈرائیور سے کم کماتا ہے اور زیادہ تر نام نہاد سرکاری ملازمین بہت سے معمولی نوکروں کے مقابلے میں زیادہ بدحالی کی زندگی گزار رہے ہیں جو کئی امیر افراد کے ہاں ملازمت کرتے ہیں۔ اب میں چاہتا ہوں کہ آپ اس اسلوب اور اس ذہنیت سے باہر نکلیں، خاص طور پر اب کہ ہم آزاد پاکستان میں ہیں۔ حکومت ہزاروں افراد کو جذب نہیں کر سکتی۔ یہ ناممکن ہے۔ مگر سرکاری ملازمت حاصل کرنے کی دوڑ میں آپ میں سے اکثر کے حوصلے پست ہو جاتے ہیں۔ حکومت صرف ایک مخصوص تعداد لے سکتی ہے اور باقی کسی اور چیز پر اکتفا نہیں کر پاتے اور یوں مایوس ہو کر ہمیشہ ایسے افراد کے نشانے پر رہتے ہیں جو اپنے مفادات کی خاطر ان کا استحصال کرنا چاہتے ہیں۔ اب میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنے ذہن، اپنی توجہ، اپنے مقاصد اور عزائم کا رخ دوسرے راستوں، راہوں اور شعبوں کی طرف موڑ دیں جو آپ کے لیے کھلے بھی ہیں اور مزید کھلتے جائیں گے۔ دستی کام اور مزدوری کرنے میں کوئی عار نہیں ہے۔

-مسٹر جناح / قائداعظم

  - تقریر:  خود سے پہلے خدمت۔

- تقریر:  نیشن بلڈنگ میں طلباء کا کردار - ڈھاکہ یونیورسٹی کے کانووکیشن میں تقریر

jinnah7.PNG

گہرے تاثُّرات

ہمیں سرکاری ملازمتوں پر توجہ مرکوز کرنے کے رجحان کو کم کرنا ہے، غیر معقول حد تک طلبہ کی ایک بڑی تعداد "سی ایس ایس" امتحانات کے لیے درخواست دیتی ہے اور اگرچہ اس سے وقار میں اضافے کا ایک غلط تاثر پیدا ہو سکتا ہے، لیکن اس کا نتیجہ ذاتی یا اجتماعی معاشی خوشحالی کی صورت میں نہیں نکل سکتا۔ یہی وہ وقت ہے کہ سی ایس ایس کے امتحانات چھوڑ کر حقیقی ترقی اور خوشحالی پر توجہ دی جائے۔


پاکستان کے عوام مارکیٹ تخلیق کرنے والی جدت میں سرمایہ کاری کے ذریعے موجودہ حالات سے بالاتر ہو کر ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جس کا وہ خواب دیکھتے ہیں۔ لیکن محض نئی مارکیٹ ہی نہیں، بلکہ ایسی نئی مارکیٹ جو ان لوگوں کی خاطر ہوں جن کے لیے یا تو کوئی مصنوعات موجود ہی نہیں تھیں یا موجودہ مصنوعات مختلف وجوہات کی بنا پر سستی یا قابل رسائی نہ تھیں۔ ایسی ایجادات پیچیدہ اور مہنگی مصنوعات کو ایسی چیزوں میں بدل سکتی ہیں جو اتنی زیادہ سستی اور قابل رسائی ہوں کہ بہت سے لوگ انہیں خریدنے اور استعمال کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ ایک لحاظ سے، مارکیٹ تخلیق کرنے والی جدت پہلے سے موجود خصوصی مصنوعات اور خدمات کو عوامی سطح پر لاتی ہیں۔ ایسی جدت نہ صرف مارکیٹ پیدا کرتی ہے بلکہ نوکریاں بھی پیدا کرتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسے جیسے نئے صارفین کے ساتھ نئی مارکیٹیں جنم لیتی ہیں، کمپنیوں کو مصنوعات بنانے، مارکیٹ کرنے، تقسیم کرنے، بیچنے اور مرمت کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ افراد کی خدمات درکار ہوتی ہیں۔ مارکیٹ تخلیق کرنے والی ایجادات مقامی ملازمتیں پیدا کرتی ہیں، بے روزگاری میں کمی، جرائم میں کمی، آمدن پر محصول اور صارفین کے اخراجات بڑھانے میں حصہ ڈالتی ہیں۔


مارکیٹیں معاشروں میں بہت سے اجزاء کو کھینچ لانے کی صلاحیت رکھتی ہیں جو معاشروں کو محفوظ، بہتر اور زیادہ خوشحال بناتے ہیں۔ ایک بار جب یہ نئی مارکیٹیں بن جاتی ہیں، تو معیشت مزید مضبوط ہو جاتی ہے کیونکہ یہ سکولوں، سڑکوں، ہسپتالوں اور یہاں تک کہ نظام حکومت چلانے کے لیے زیادہ آمدن پیدا کرنے لگتی ہیں۔ یہاں تک کہ چھوٹی چھوٹی ایجادات بھی ممالک کو معاشی اور ثقافتی طور پر تبدیل کرنا شروع کر سکتی ہیں۔


جب ہینری فورڈ نے پہلی مرتبہ حوصلہ مندی کے ساتھ اوسط امریکی کے لیے کار بنانے کا فیصلہ کیا، تو انہیں شدید شکوک و شبہات کا سامنا کرنا پڑا۔ ناقدین نے پیش گوئی کی کہ وہ چھ ماہ میں کاروبار سے باہر ہو جائے گا۔ لیکن فورڈ نے ہمت نہیں ہاری۔ "میں بڑی تعداد میں لوگوں کے لیے ایک کار بناؤں گا۔ یہ اتنی بڑی ہو گی کہ ایک خاندان کے لیے کافی ہو گی لیکن اتنی چھوٹی بھی کہ ایک فرد اسے چلائے اور دیکھ بھال کر سکے۔ اسے بہترین مواد سے بنایا جائے گا، اس کے لیے بہترین افراد کی خدمات حاصل کی جائیں گی، جو کہ جدید انجینئرنگ کے ذریعے سادہ ترین ڈیزائن پر مشتمل ہو گی۔ لیکن اس کی قیمت اتنی کم ہو گی کہ اچھی تنخواہ لینے والا ایسا کوئی بھی شخص نہیں ہو گا جو اسے اپنی ملکیت نہ بنا سکے – اور اپنے خاندان کے ہمراہ خدا کی دی عظیم کھلی جگہوں پر گھنٹوں لطف اندوز ہونے کی نعمت سے مستفید نہ ہو سکے۔" اس نے اعلان کیا۔


کسی انقلابی ترقی کے لیے، موجدوں کو پہلے ایک مختلف دنیا کا تصور کرنا ہوتا ہے، جو ایسے امکانات سے بھری ہوئی ہے جس کا بہت سے دوسرے لوگ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ ناقدین نے فورڈ کی پیشین گوئی کو پاگل پن کیوں سمجھا۔ اس امریکہ کا تصور کریں جس میں فورڈ نے اپنی کاریں متعارف کروائی تھیں۔ 1900 کی دہائی کے اوائل تک، فی کس جی ڈی پی آج کے ڈالر میں تقریباً 7,800 ڈالر تک پہنچ گئی تھی، جو کہ برطانیہ کے 8,800 ڈالر کی سطح کے قریب تھی، لیکن ایک اوسط امریکی کے لیے زندگی پھر بھی مشکل تھی۔ زیادہ تر لوگوں کو اب بھی بجلی تک رسائی نہیں تھی۔ نسبتاً کم بچے ثانوی اسکول تک پہنچ پاتے تھے۔ متوقع عمر سینتالیس سال کے لگ بھگ تھی۔ اور امریکہ کا سڑکوں کا نظام تعمیر نہیں ہوا تھا، کم از کم موٹرکاروں کے قابل نہیں۔ اس وقت، اوسط امریکی کو گاڑیوں کی ضرورت یا ان کے امریکہ پر اثرات کا ادراک بالکل نہیں تھا۔ زیادہ تر لوگ اپنے کام کاج اور تفریح کی جگہ کے قریب ہی رہائش رکھتے تھے۔ آج کل کی بہت سی ابھرتی ہوئی مارکیٹوں کی طرح، صرف امیر امریکی ہی کاریں رکھنے کی استطاعت رکھتے تھے۔ لیکن ہنری فورڈ اسے تبدیل کرنے والا تھا۔
 

 سن 1863 میں پیدا ہوئے، ہنری فورڈ کو جدت پسندی کا شوق تھا۔ اس کے والد ڈیئربورن، مشیگن میں ایک زرعی اراضی کے مالک تھے، جہاں فورڈ چھوٹے چھوٹے آلات بناتے تھے تا کہ کاشتکاری کے چند زیادہ مشکل کاموں کو آسان بنایا جا سکے۔ دیگر موجدوں کی طرح فورڈ بھی با ضابطہ طور پر تعلیم یافتہ نہیں تھا۔ ایک میکینک کے شاگرد بننے کے بعد، فورڈ کا بغیر گھوڑے والی گاڑی بنانے کا شوق بڑھتا گیا۔ اس نے اپنے فارغ وقت میں بارہ سال سے زائد عرصے تک اس پر کام کیا، یہاں تک کہ اس نے ایڈیسن الیومینیٹنگ کمپنی میں اپنی کل وقتی ملازمت چھوڑ کر ایک نئے کاروبار، ڈیٹرائٹ آٹوموبائل کمپنی میں شمولیت اختیار کی۔ ڈیٹرائٹ آٹوموبائل کمپنی کامیاب نہ ہو سکی اور فورڈ کو کمپنی سے نکال دیا گیا

لیکن ایک کامیاب آٹوموبائل کمپنی بنانے کا ان کا عزم مضبوط رہا۔


 سن 1903 میں، اوہائیو کے ممتاز کار ساز، الیگزینڈر ونٹن کے خلاف ایک ریس جیتنے کے بعد، جسے فورڈ نے خود ڈیزائن کیا تھا، اس نے اور

سرمایہ کاروں کے ایک چھوٹے سے گروہ نے فورڈ موٹر کمپنی بنائی۔ یہیں پر امریکہ میں "موٹر کار کی جمہوریت" کے بیج بوئے گئے۔


ایک ایسا کامیاب کاروباری ماڈل بنانے کے لیے جس نے غیر کھپت (مانگ) حلقے کو نشانہ بنایا، فورڈ نے بہت سے ایسے کام کیے جو آج کار

بنانے کے لیے "بنیادی" نہیں لگتے۔ دوسرے الفاظ میں، اس کی کمپنی کو بہت سے وسائل اور اجزاء کو شامل کرنا پڑا جو، آج، غیر معقول اخراجات لگیں گے۔ لیکن مخصوص حالات میں، خاص طور پر وہ جن میں ایک نئی مارکیٹ بنائی جا رہی ہو، کام جو کرنا مقصود ہو اسے کامیابی کے ساتھ مکمل کرنے کے لیے ان چیزوں کو بھی شامل کرنا پڑتا ہے جو "غیر بنیادی وسائل" کے زمرے میں آتی ہیں۔ آج، ہم اسے عمودی انضمام کا نام دیتے ہیں، لیکن اس وقت موجد صرف یہ جانتے تھے کہ ایک نئی مارکیٹ بنانے میں کامیابی کے لیے کیا کرنا ضروری ہے۔ فورڈ نے بھی دراصل یہی کیا۔ کیونکہ اس وقت کار سازوں کی اکثریت کھپت کی معیشت پر مرکوز تھی اور صرف امیر افراد کو نشانہ بناتی تھی، وہ چھوٹے رہے اور

انہیں مرضی کے مطابق تیار کردہ گاڑیاں تیار کرنے کے لیے وسیع وسائل اکٹھے کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔


اس کے برعکس، فورڈ کو یہ جاننا پڑا کہ بہت سی چیزوں کو کیسے کام میں لانا ہے۔ 1920 کی دہائی تک، آٹو اسمبلی پلانٹ ان اہم سرمایہ کاری

کی ایک طویل فہرست میں سے ایک تھا جو فورڈ نے اپنی کار کو امریکی غیر صارفین تک پہنچانے کے لیے کی تھی۔ فورڈ کی کمپنی اسٹیل کے لیے فولادی بھٹی، لکڑی کے جنگلات، کوئلے کی کانیں، ربڑ کے باغات، ایک ریل روڈ، مال بردار گاڑیاں، گیس اسٹیشن، آری مشینیں اور شیشے کے کام کی فیکٹریاں بھی چلاتی تھی۔ کار کی صنعت میں یہ پہلا واقعہ تھا۔ کسی نے کبھی ایسا کچھ نہیں دیکھا تھا۔ یہ سرمایہ کاری صرف فورڈ کا بنیادی ڈھانچہ ہی نہیں تھی، بلکہ وہ امریکیوں کا بنیادی ڈھانچہ بھی بن گئی۔


فورڈ ماڈل ٹی نے امریکہ کے منظر نامے کو حقیقی معنوں میں بالکل بدل دیا۔ 1900 میں، ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں رجسٹرڈ کاروں کی کل تعداد 8,000 تھی۔ 1910 تک، صرف دس سال بعد، یہ 458,000 تک پہنچ گئی۔ 1920 میں، یہ 08 لاکھ تھی؛ اور 1929 تک، ملک میں 23 ملین سے زیادہ رجسٹرڈ موٹر گاڑیاں تھیں۔ ماڈل ٹی ریاستہائے متحدہ امریکہ اور دنیا کے دیگر حصوں میں موٹرکار کو اپنانے کی ایک اہم وجہ تھی۔ مثال کے طور پر، 1922 میں، تقریباً 25 لاکھ نئی رجسٹرڈ کاروں میں سے تقریباً 20 لاکھ فورڈ ماڈل ٹی کاریں تھیں۔


چونکہ کاریں مزید سستی ہوتی گئیں، شہر کے سفر اور کھیتوں میں کام کے لیے گھوڑوں کی ضرورت کم ہوتی گئی۔ بہت سے کسانوں نے اپنی کاشتکاری کی ضروریات کے لیے فورڈ ماڈل ٹی کو تبدیل کیا، جس سے گھوڑوں اور خچروں کی ضرورت میں مزید کمی آئی۔ بیسویں صدی کے اوائل تک، امریکہ کو سالانہ گھوڑوں کی دیکھ بھال پر 2 ارب ڈالر سے زیادہ کی لاگت آ رہی تھی، تقریباً اتنی ہی جتنی ریل روڈ کو برقرار رکھنے پر آتی۔ مثال کے طور پر، نیویارک شہر میں، شہر کے اہلکاروں کو ماہانہ پینتالیس ہزار ٹن سے زیادہ گھوڑوں کے گوبر سے نمٹنا پڑتا تھا۔ مسئلہ اتنا شدید اور گھناؤنا تھا کہ ایک کاروں کے حامی نے دعویٰ کیا کہ "تمام جنگیں مل کر ان اموات کے نصف کا سبب نہیں بنی جو گھوڑے کے باعث واقع ہوئی ہیں۔" یہ کچھ مبالغہ آرائی تو ہو سکتی ہے، مگر یہ یقینی طور پر اس دور کے تحفظات کا احاطہ کرتی ہے۔ ایک نقاد نے یہاں تک کہہ دیا کہ 1930 تک، گھوڑے کا گوبر "مینہیٹن کی تیسری منزل کی کھڑکیوں تک پہنچ جائے گا"۔ خوش قسمتی سے، ہنری فورڈ کی موٹرکار اس سے

پہلے ہی مقبول ہو گئی۔


فورڈ کا غیر کھپت حلقے کو نشانہ بنانے اور امریکہ میں موٹرکار کی ایک نئی مارکیٹ بنانے کا فیصلہ اور پھر مارکیٹ کی بہت سے نئے وسائل

تیار کرنے اور ملانے کی ضرورت، بشمول سڑکوں کے، امریکہ کی ترقی اور خوشحالی کے لیے نہایت اہم تھی۔ اپنی کتاب بڑی راہیں: امریکہ کی بڑی شاہراہیں بنانے والے انجنیئر، اہلِ بصیرت اور رہبروں کی ان کہی داستان میں، ارل سوئفٹ بتاتے ہیں کہ 1909 تک، امریکہ کی 2.2 ملین میل سڑکوں میں سے صرف 8 فیصد میں "کسی بھی طرح کی بہتری" آئی تھی۔ اور 8 فیصد "بہتر سڑکوں" میں سے نصف بجری کی تھیں۔ اس وقت امریکہ کے پاس صرف نو میل کنکریٹ کی سڑکیں تھیں۔ لیکن جیسے جیسے گاڑی ہر جگہ نظر آنے لگی، سڑکیں بہتر ہوتی گئیں، اور امریکی

نہایت مستفید ہوئے۔


امریکہ میں سڑک کی تعمیر کے معاشی اور سماجی اثرات بہت زیادہ تھے۔ "تعمیر پر خرچ ہونے والے ہر ایک ارب ڈالر نے ایک سال کے لیے

48,000 کل وقتی ملازمتیں فراہم کیں اور وسائل کا تقریباً ناقابل فہم وسیع ذخیرہ استعمال میں لایا؛ 16 ملین بیرل سیمنٹ، نصف ملین ٹن سے زائد سٹیل، 18 ملین پاؤنڈ دھماکہ خیز مواد، 123 ملین گیلن پیٹرولیم مصنوعات، اور نیو جرسی کو گھٹنوں تک بھر دینے کے لیے کافی مٹی۔ اس نے 76 ملین ٹن تعمیراتی مواد بھی استعمال کیا۔" سوئفٹ بیان کرتا ہے۔


لیکن سڑکیں جتنی اہم تھیں، اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ انہوں نے کیا سہولت فراہم کی۔ اچھی سڑکوں کے آنے سے پہلے امریکہ میں دیہی اسکولوں میں حاضری تقریباً 57 فیصد تھی۔ اچھی سڑکیں بننے کے بعد روزانہ حاضری 77 فیصد تک پہنچ گئی۔ ایک ٹن مال کو منتقل کرنے کی لاگت ایک غیر معیاری سڑک پر 22 سینٹ فی میل تھی، لیکن بہتر سڑکوں پر یہ 12 سینٹ تک گر گئی۔ نقل و حمل کے اخراجات میں کمی نے شہروں کے اندر اور ان کے درمیان سفر اور تجارت کو فروغ دیا۔


تاہم، سڑکیں اور ان کے معاون فوائد، ہی وہ واحد شے نہیں تھے جو فورڈ کی جدت امریکہ میں کھینچ لائی۔ اس بات پر غور کریں کہ کمپنی نے کس طرح اجرتوں اور آمدنیوں کو متاثر کیا، جو ترقی، خوشحالی، اور جمہوریت کی افادیت کا تعین کرنے والے سب سے اہم عوامل میں سے ایک ہے۔ جب فورڈ نے اپنی فیکٹریوں میں اسمبلی لائن قائم کی تو کام یکسر ہو گیا۔ غیر ہنر مند افراد نے دن میں نو گھنٹے، ہفتے میں چھ دن، اور تقریباً 2.34 ڈالر فی دن (آج کے ڈالر میں 60 ڈالر) کے عوض بار بار ایک سا کام کیا۔ کام کی یکجہتی کے نتیجے میں، فورڈ کے مینوفیکچرنگ پلانٹ کا کاروبار 370 فیصد سالانہ تک بڑھ گیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ فورڈ کو اپنی فیکٹری کو رواں رکھنے کے لیے ہر ایک کام کے لیے، چار افراد کی خدمات حاصل کرنی پڑیں۔ یہ غیر موزوں تھا۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے، 1914 میں، فورڈ نے اپنے کارخانے کے کارکنوں کے لیے بنیادی طور پر دگنی تنخواہ فی دن کم از کم اجرت $5 قائم کر دی۔ ناقدین اور دیگر کار سازوں نے فورڈ کو اجرت میں اضافہ کرنے پر پاگل تصور کیا۔ وال اسٹریٹ جرنل کے ادارتی صفحہ نے اس وقت یہ اشارہ کیا تھا کہ ایسا کرنے سے، فورڈ نہ صرف اپنے ساتھی کاروباری مالکان سے دغا کر رہا تھا، بلکہ وہ پوری امریکی صنعت کو خطرے میں ڈال رہا تھا۔ جریدے نے لکھا، "کام کی طوالت کی پرواہ کیے بغیر، کم از کم اجرت کو دگنا کرنا، بائیبل یا روحانی اصولوں کو لاگو کرنا ہے جن کا یہاں کوئی واسطہ نہیں ہے۔" مزید کہا کہ فورڈ نے "اپنی سماجی کاوش میں جرائم نہ سہی، مگر بڑی غلطیوں کا ارتکاب ضرور کیا ہے۔ جو اسے، جس صنعت کی وہ نمائندگی کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ منظم معاشرے کو بھی تباہی کے دہانے پر لے آئیں گی"۔


خوش قسمتی سے، فورڈ اس وقت بہت سے مروجہ رجحانات سے متفق نہیں تھا۔ اس کے فیصلے پر اکثر اس زاویے سے بحث کی جاتی ہے کہ یہ اپنے کارکنوں کو گاہکوں میں تبدیل کرنے کی کوششوں کا ایک حصہ تھا، زیادہ اجرت کے ساتھ، وہ اس کی گاڑیوں کے متحمل ہو سکتے تھے، سوچ یہی ہے۔ لیکن در حقیقت، فورڈ اپنی فیکٹری کو کھلا رکھنے پر مرکوز تھا۔ فورڈ نے بعد میں تبصرہ کیا کہ اجرت میں اضافہ "کمپنی کی جانب سے لاگت میں کمی کا سب سے ذہین اقدام" تھا۔ دیگر صنعت کاروں نے بھی اس اقدام کے فوائد کو دیکھا اور اس کی پیروی کرتے ہوئے اپنے کاموں میں زیادہ اجرت کا انتخاب کیا۔


کام کے ہفتے کو چھ دن سے پانچ دن میں تبدیل کرنے کا بھی فورڈ بڑی حد تک ذمہ دار تھا، اس اقدام سے بھی اس کے ناقدین کو خدشہ تھا کہ پوری معیشت کو نقصان پہنچے گا۔ کسی نہ کسی طرح، فورڈ نے چیزوں کو مختلف طریقے سے دیکھا: اس نے اپنے کارکنوں کی پیداواری صلاحیت کو برقرار رکھنے اور بہتر بنانے کے لیے کام کے ہفتے کو کم کرنا ضروری سمجھا اور مجموعی طور پر معیشت پر ممکنہ دور رس اثرات کو سمجھا۔ "اب وقت آگیا ہے کہ ہم خود کو اس تصور سے نجات دلائیں کہ مزدوروں کے لیے فرصت یا تو 'ضائع شدہ وقت' ہے یا پھر طبقاتی استحقاق... وہ لوگ جو ہفتے میں صرف پانچ دن کام کرتے ہیں وہ ان لوگوں سے زیادہ سامان استعمال کریں گے جو ہفتے میں چھ دن کام کرتے ہیں۔" اُس نے اس وقت کہا۔ "جن لوگوں کے پاس زیادہ فرصت ہے ان کے پاس زیادہ کپڑے ہونے چاہئیں۔ وہ زیادہ انواع و اقسام کا کھانا کھاتے ہیں۔ انہیں زیادہ نقل و حمل کی سہولیات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس بڑھتی ہوئی کھپت کو اس سے زیادہ پیداوار کی ضرورت ہو گی جو ابھی ہمارے پاس ہے... اس سے کام بڑھے گا۔ اور اجرت بھی۔


اس طرح کے اقدامات سے اس کے پلانٹ کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں مدد ملنے سے، فورڈ موٹر کمپنی ماڈل ٹی کی قیمت 1909 میں $950 (آج کے ڈالر میں تقریباً 25,000 ڈالر) سے 1927 میں $260 (آج کے ڈالروں میں 3,700 ڈالر) تک کم کرنے میں کامیاب رہی، اور اسے اوسط امریکی کے لیے، بشمول فورڈ فیکٹری کے ملازمین کے مزید سستی بنا دیا۔ اس کے نتیجے میں ماڈل ٹی کی فروخت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ 1923 تک، ملک میں صرف 15 ملین سے زائد کاریں رجسٹرڈ تھیں، تقریباً 135 کاریں فی 1,000 افراد۔ ماہرین اقتصادیات نے پیش گوئی کی کہ صنعت کی ترقی جاری نہیں رہ سکتی۔ وہ یہ نہیں سمجھ پا رہے تھے کہ امریکی کیونکر کاریں خریدتے رہیں گے۔ ان کے مطابق، زیادہ تر لوگ جو کاریں رکھ کر سکتے تھے، کم از کم ایک خرید چکے تھے۔ کچھ گھرانوں میں دو بھی تھیں۔ مگر ان کے تخمینے غلط ثابت ہوئے۔ 2014 میں، فی 1,000

امریکیوں پر 816 گاڑیاں تھیں۔ 260 ملین سے زیادہ کاریں امریکی گلیوں، سڑکوں اور شاہراہوں پر گھوم رہی تھیں۔


جب ہم فورڈ، یا ماڈل ٹی کے بارے میں سوچتے ہیں، تو ہم سوچتے ہیں کہ اس ایک ایجاد نے کئی امریکی زندگیوں کو کیسے بدل دیا۔ ہم فورڈ کے

پروان چڑھائے گئے جدت کے کلچر  اور کئی افراد کے لیے بہتر زندگی گزارنے کے پیدا کردہ امکانات کے بارے میں سوچتے ہیں۔
 

***


مختلف ایجادات ہیں جو پاکستان میں نئی ​​مارکیٹ بنا سکتی ہیں۔ براہ کرم مارکیٹ بنانے والی ایجادات کی صرف چند مثالوں کا جائزہ لیں


پورٹ ایبل واشنگ مشینیں: عالمی واشنگ مشین انڈسٹری تقریباً 25 سے 30 ارب ڈالر کی مارکیٹ ہے، پاکستان اس مارکیٹ کے 5 فیصد سے بھی کم کا ذمہ دار ہے، حالانکہ اس ملک کی آبادی 22 کروڑ ہے۔ پاکستان میں صرف 7% گھرانوں کے پاس واشنگ مشین ہے۔ اس کا موازنہ برطانیہ سے کریں، جہاں 97 فیصد گھرانوں کے پاس یہ سامان ہے۔ موجودہ واشنگ مشینیں پیچیدہ، بجلی کی بھوکی اور دنیا کی زیادہ تر آبادی کے لیے بہت مہنگی ہیں، اور وہ زیادہ تر ان گھروں کے لیے دستیاب ہیں جن میں پائپ کے ذریعے پانی کی فراہمی ہے۔ اس کے علاوہ، واشنگ مشین خریدنے اور اسے اپنے گھر سے منسلک کرنے کے لیے تقریباً ہمیشہ ایک پلمبر کی ضرورت ہوتی ہے، جو کہ پاکستان میں بہت سے گھرانے برداشت نہیں کر سکتے۔ موجودہ مشینوں کو بجلی کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور پاکستان میں لاکھوں گھرانوں کو بجلی تک رسائی نہیں ہے۔ لہذا ڈیزائن کے اعتبار سے، مارکیٹ میں زیادہ تر واشنگ مشینیں پاکستان اور دنیا کی آبادی کی اکثریت کو منہا کر دیتی ہیں۔ لیکن کیسا ہو اگر ایک موجد ایک پورٹیبل کم قیمت والی واشنگ مشین کو ڈیزائن، تیار اور فروخت کرے جس کا ہدف خاص طور پر پاکستان اور اس جیسے بہت سے ممالک میں غیر صارف مارکیٹ ہو؟


سستی دوائیں: پاکستان میں فی کس فارمیسی انتہائی کم ہیں، جس کا مطلب ہے کہ 22 کروڑ لوگوں کے لیے صرف 8,000 فارمیسی ہیں۔ ایک کم لاگت کی فارمیسی کے کاروباری ماڈل کی ضرورت ہے جو اپنے ساتھ ضروری بنیادی ڈھانچے کو بھی کھینچ لائے گا جو پاکستان کے بنیادی ڈھانچے کے طور پر بھی کام کرے گا۔ تصور کریں کہ اگر ایک مقامی دوا خانہ ترقی کر کے پاکستان کا والگرینز بن جائے تو کیسا ہو۔


صفائی اور توانائی: بہت سے غریب ممالک میں اور بہت سے غریب ممالک کی حکومتوں کے لیے صفائی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ جب زیادہ تر حکومتوں کو اساتذہ، ڈاکٹروں اور دیگر سرکاری ملازمین کو تنخواہ دینے کے لیے مالی وسائل نہیں مل پاتے، تو وہ صفائی کے لیے فنڈ کیسے فراہم کر سکتے ہیں؟ چونکہ اس طرح کے فضلہ کا انتظام غریب ممالک میں اکثر ایک اہم مسئلہ ہوتا ہے، اور، شہری کاری کے حالیہ رجحانات کے ساتھ، لگتا نہیں کہ یہ بہتر ہو گا۔ نہ صرف یہ مقامی آبادی کی صحت کے لیے ایک مہلک خطرہ ہے بلکہ یہ معیشت کے لیے بھی بہت گراں ہے۔ کیسا ہو اگر کوئی موجد فضلہ سے توانائی بنانے والی فیکٹری بنائے جو شہری کچی آبادیوں میں بیت الخلاء اور کھانے کی منڈیوں سے فضلہ اور نامیاتی فضلہ جمع کرے، اور پھر اسے نامیاتی کھاد، آبپاشی کے پانی اور بائیو گیس میں تبدیل کرے؟ اس کے بعد بائیو گیس کو بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، جب کہ نامیاتی کھاد اور پانی کو پودے اگانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح کے کام سے ہزاروں

پاکستانیوں کو ملازمتیں اور تربیت مل سکتی ہے جن کے معاشی حالات مخدوش ہیں۔


ہمارا ماننا ہے کہ مارکیٹ تخلیق کرنے والی جدت ہی پاکستان کی پائیدار اقتصادی ترقی کا راستہ ہے۔

ماخذ: خوشحالی کا تضاد، از کلیٹن ایم کرسٹینسن، ایفوسا اوجومو، کیرن ڈیلن

اب یہ پڑھیں

Edhi

       اپنی ذات سے بڑھ کر خِدمت

نوجوانوں کو تجویز دی جاتی ہے کہ وہ قومی فلاح و بہبُود کو اپنے ذاتی مفاد اور بہتری پر فوقیت دیں۔ 

یکساں مضامین جو شاید آپ کو پسند آئیں

Sense of Patriotism
Development
Screen Shot 2023-02-04 at 8.59.20 PM.png
bottom of page