پیش رفت
جناح کے نظریات
میں یہ بتاتا چلوں کہ بلوچستان پہلے ہی ڈیڑھ کروڑ تک کے خسارے کا شکار صوبہ ہے اور جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے پاکستان کو عوام کی مدد کی خاطر مزید مالی بوجھ برداشت کرنا پڑے گا، مگر مجھے امید ہے کہ پاکستان بلوچستان کے عوام کی ترقی اور بہبود کی خاطر اسے برداشت کرنے سے دریغ نہیں کرے گا۔
-مسٹر جناح / قائداعظم
- تقریر: بلوچستان میں ترقی کا نیا دور
- خیال، سیاق: سبی دربار میں خطاب۔
گہرے تاثُرات
برطانوی راج کے دوران، بلوچستان ہندوستان کے پسماندہ ترین مقامات میں سے ایک تھا۔ نوآبادکاروں نے اپنا قانونی جواز اور اختیار عوام کی رضا سے حاصل نہیں کیا تھا، اور اسی لیے وہ عوام کی ضروریات سے بے نیاز رہے۔ جن آبادیوں نے نوآبادکاری کے تاریک گرہن کا تجربہ کیا ہے، انہیں اپنے عوام کی سماجی، معاشی، تعلیمی اور سیاسی بہتری کے لیے بہت کچھ کرنا ہے۔
دنیا بھر میں مابعد نوآبادیاتی اقوام کی راہ میں مشکلات حائل رہی ہیں، اور مشکل ترین کاموں میں سے ایک، دیرپا خوشحالی کے لیے اقتصادی ترقی کو آگے بڑھانا رہا ہے۔ نوآبادیاتی دور کے بعد کے قومی متوسط طبقے کے پاس کوئی معاشی قوت یا تکنیکی علم نہیں ہے اور "قومی متوسط طبقہ بنیے کی نفسیات رکھتا ہے، نہ کہ کسی منجھے صنعتکار کی، اور حقیقت بھی یہی ہے کہ آباد کاروں کے لالچ اور استعمار کے قائم کردہ پابندیوں کے نظام نے ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ چھوڑا ہی نہیں۔
پاکستان نوآبادیاتی دور کے بعد کامیابی کی داستان رقم کرنا چاہتا ہے، اور 70 سال کو کسی قوم کی زندگی میں نسبتاً مختصر عرصہ گردانتا ہے، مزید بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے ہمیں نوآبادیاتی دور کے گزشتہ سالوں کے اثر سے نکلنے اور ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کیلئے صرف ایک کامیاب پیش رفت کی ضرورت ہے۔
ہم اپنے لوگوں میں اقتصادی مہم جوئی، فکری تجسس، مسائل کے حل اور تکنیکی جدت کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ ہم بلوچستان میں انسانی سرمائے کی ترقی اور بلوچ عوام میں پیشہ ورانہ علوم کو تیزی سے پھیلانے پر توجہ مرکوز کریں گے۔ ہمیں بلوچستان کو استدلال اور تخلیقی سوچ کی مہارتوں سے آراستہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے مسائل خود حل کر سکیں، اپنے علاقوں میں کاروبار اور نئی منڈیاں قائم کر سکیں۔ یہ ایک فطری امر ہے کہ ہماری قومی تاریخ خود کو دہرائے اور مسٹر جناح کے تاریخی نظریات پاکستان کے شہریوں کی جانب سے ایک مستقل اور خوش اسلوب کوشش کے نتیجے میں عملی جامہ پہن لیں۔
ہم بلوچستان کی ترقی کے لیے مسلسل کام کریں گے اور بلوچ عوام کی خوشحالی کے لیے کوشاں رہیں گے، جو پاکستان کے شہریوں کا ایک
باوقار حصہ ہیں۔
٭ماخذ: دی ریچڈ آف دی ارتھ از فرانٹز فینن
اب یہ پڑھیں
یکساں مضامین جو شاید آپ کو پسند آئیں
اِسلامی جمہُوریت کا تقاضا یہ ہے کہ ریاست کے شہری کِسی بھی مذہب یا ذات یا نسل سے تعلُّق رکھ سکتے ہیں - اُس سے ریاست کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔