top of page

جناح کے نظریات

بلوچستان صرف سیاسی ، جغرافیائی اور اقتصادی طور پر پاکستان میں موجود ہو سکتا ہے ، یہ بلوچستان کے لوگوں کے مفاد میں ہوگا کہ وہ پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں شامل ہوں کیونکہ یہ پاکستان ہی ہے جو ان کی تعلیمی ، سماجی ، معاشی اور سیاسی ترقی میں مدد کر سکتا ہے۔ میں بلوچستان کے لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان میں تمام طبقات اور مفادات کو انصاف اور منصفانہ کھیل ملے گا اور مجھے امید ہے کہ وہ ہمارے دشمنوں کے پروپیگنڈے سے گمراہ نہیں ہوں گے ، طبقے کے خلاف اور ایک خاص مفاد کو دوسرے کے خلاف ڈالیں گے۔

-مسٹر جناح / قائداعظم

- تقریر:  پاکستان آئین ساز اسمبلی کے لیے مضبوطی سے ووٹ دیں۔

Jinnah_7.PNG

گہرے تاثُّرات

اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے مشترکہ اسلامی نظریے نے، اپنی مملکت کے مطالبے اور پاکستان کو وجود میں لانے کے لیے جنوبی ایشیائی برصغیر کی مختلف مسلم قومیتوں کو جوڑ دیا، جن میں ہمارے عظیم بلوچ عوام بھی شامل ہیں۔

ہمارے بلوچ بھائیوں نے پاکستان کے لیے جدوجہد کی کیونکہ مسٹر جناح نے مسلسل تمام صوبوں کو مساوی خودمختاری فراہم کرنے کی وکالت کی، انہوں نے زور دے کر کہا کہ بلوچستان میں بھی اسی بنیاد پر اصلاحات لائی جائیں جس طرح دوسرے صوبوں میں ہیں اور آئین میں صوبے کی مرضی کے بغیر کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ (مسٹر جناح کے 14 نکات پر مزید پڑھیں۔)

پاکستان بلوچستان کا قدرتی گھر ہے۔ نوآبادیاتی غفلت کا مداوا، عوام کی بہتری، منصفانہ نظام اور انصاف کی فراہمی کا وعدہ ہی قومی ہم آہنگی کی بنیاد ہے۔ یہ وعدہ، ابھی تک، ادھورا ہے۔ انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں، بڑے پیمانے پر طلباء، سماجی کارکنوں، صحافیوں اور انسانی حقوق کے محافظوں کی جبری گمشدگیوں کی صورت میں موجود ہیں۔ ریاستی اہلکار یا ان کی خاطر کام کرنے والے دوسرے افراد، لوگوں کو ان کے پیاروں سے چھین کر قانونی تحفظ سے دور رکھتے ہیں۔ اس کے بعد حکام انکار کرتے ہیں کہ وہ شخص ان کی تحویل میں ہے یا یہ بتانے سے انکار کرتے ہیں کہ وہ کہاں ہیں۔ لاپتہ افراد کے اہل خانہ شدید غم میں ڈوب جاتے ہیں، بدترین اندیشوں کے باوجود وہ امید کی شمع جلائے رکھتے ہیں۔ بہت سے لوگ برسوں سے اس برزخ میں ہیں۔ ان جبری گمشدگیوں کی کچھ ریکارڈ شدہ مثالوں میں ڈاکٹر دین محمد، زاہد بلوچ، شبیر بلوچ، ہانی گل اور محمد نسیم بلوچ، حسن قمبرانی، راشد حسین بروہی اور متعدد دیگر* شامل ہیں۔

*ذرائع: ایمنسٹی انٹرنیشنل

بلوچستان بھر میں وسیع پیمانے پر فعال "کِل اینڈ ڈمپ" آپریشنز جاری ہیں جہاں لوگوں کو اغوا اور قتل کیا گیا اور ان کی لاشیں چھوڑ دی گئیں۔ حملہ آوروں نے اپوزیشن رہنماؤں اور کارکنوں کو ہدف بنا کر قتل بھی کیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ  نے بلوچستان میں پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے جبری گمشدگیوں کی جامع دستاویز تیار کی ہے، جس میں کئی ایسے معاملات بھی شامل ہیں جن میں "غائب" افراد مردہ پائے گئے ہیں۔

بلوچستان نہایت ابتر حالت میں ہے اور حکام نے اپنے ہی لوگوں کو دور کر لیا ہے۔ اس سب نے بھارتی پروپیگنڈے اور فوجی مشینری کو ایندھن فراہم کیا ہے جو پاکستان کو توڑنے کے لیے دن رات کوشاں ہے۔ پاکستان بلوچستان کے عوام کی سماجی، سیاسی، معاشی اور تعلیمی ترقی کے اپنے اصل تاریخی وعدوں کو دوبارہ دریافت کر کے اپنا کھویا ہوا اخلاقی جواز دوبارہ حاصل کر سکتا ہے۔ اگر بلوچستان میں بے پناہ دولت اور خوشحالی پیدا ہو جائے، اگر بلوچ عوام اچھی زندگی گزارنے لگیں، تو علیحدگی پسندانہ جذبات کے جڑ پکڑنے کی کیا وجہ بچتی ہے؟ کیا عقل کا تقاضا نہیں ہے کہ جابرانہ اقدامات علیحدگی پسند عناصر کو مزید ہوا دیتے ہیں؟ بلوچستان میں فی کس آمدنی میں اضافہ، نظامِ صحت میں بہتری، تعلیمی سطح میں خاطر خواہ اضافہ اور کوئٹہ کو ایک جدید شہر میں تبدیل کرنا ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔

 

ہمارے بلوچ بھائیوں کے ساتھ انصاف اور منصفانہ رویہ سماجی و اقتصادی انضمام کی کلید ہے۔ کیا بلوچ محسوس نہیں کرتے کہ پاکستان میں پنجابی ان سے زیادہ بااختیار ہے؟ کیا بلوچ عوام محسوس نہیں کرتے کہ ان کے انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں اور انہیں ریاست پاکستان سے انصاف نہیں ملے گا؟ قومی یکجہتی کے لیے ضروری ہے کہ ہر صوبے کا ہر فرد یہ محسوس کرے کہ انصاف کا بول بالا ہے۔

قوانین کا احترام، ہر پاکستانی ماں اپنے اس گود میں لپٹے ہوئے بچے کو سکھلائے جو بولنا سیکھ رہا ہو، اسے اسکولوں، مدرسوں اور کالجوں میں پڑھایا جائے۔ اسے نصابی کتابوں، املا کی کتابوں اور اخبارات میں لکھا جائے۔ منبر سے اس کی تبلیغ کی جائے، قانون سازی کے ایوانوں میں نشر کیا جائے، اور عدالتوں میں نافذ کیا جائے۔ اگر ہم اپنے بلوچ بھائیوں کے لیے انصاف قائم کرتے ہیں تو ہم پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے بلوچستان کی یقینی ترقی کے قومی مشن میں خدائے بزرگ و برتر ہمارے ساتھ ہے۔

اب یہ پڑھیں

12857404305_bbec443d53_b.jpeg

یکساں مضامین جو شاید آپ کو پسند آئیں

42878735241_64f57a7f7b_b.jpeg
Baloch tribes

اِسلامی جمہُوریت کا اُصول یہ ہے کہ ریاست کے شہری کِسی بھی مذہب یا ذات یا نسل سے تعلُّق رکھتے ہوں - اِس سے ریاست کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ 

anchor-edited-hero-928x529.jpeg
bottom of page